گزرے دنوں ۔۔۔ وہ جو پرندے گئے جاں سے! شاعر : کاشف شمیم صدیقی
(پنچھی نامہ)
گزرے دنوں ۔۔۔ وہ جو پرندے گئے جاں سے!
*****
زندگی حَسین تھی
خوبصورت رنگین تھی
میں اُڑتا تھا تازہ ہواﺅں میں ،
لیتا تھا سانسیں ، کھُلی فضاﺅں میں
اُڑتا پھرتا تھا میںخوب چہچہاتا ، ، پروں کو پھیلاتا
کبھی اُوپر چلا جاتا
کبھی نیچے آجاتا
کبھی دائیں سفر کرتا ،، کبھی بائیں مُڑ جاتا
میں جا بیٹھتاگھنے شجر پہ، جب دھوپ تیز ہوتی
پھر باغوں میں پھولوں سے ملتا ،
جیسے ہی شام ہوتی
دانا چُگتے ، پانی پیتے
تنکوں سے کچے گھر کو بناتے
ہر سانس رب کا شُکر بجا لاتے،
کٹتے تھے دن یونہی ، ہنستے مسکراتے
پھر ہوا یوں ۔۔۔۔،
کہ بچھے کسی جال میں
مجھے جکڑ لیا گیا
دُور شہر بازار میں
مجھے بیچ دیا گیا
کٹنے لگے پھر دن اور رات ، قفس میں بند ہو کر
سُوج گئیں تھیں آنکھیں ، میری رو رو کر
میں کرتا بھی کیا ، سوائے صبر کے
نہ کر سکتا تھا کچھ بھی ، بدلے میں جبر کے
سمجھوتا حالات سے کر لیا میں نے،
اُس قفس کو ہی گھر اپنا ، سمجھ لیا میں نے
گر کٹتی زندگی یونہی ، تو بھی بھلی تھی
میں تھا جس دُکاں میں ، نہ وہ آج کھُلی تھی
نہ شور تھا بازار میں ، نہ تھی کوئی ہلچل
بے چینی بڑھا رہا تھا ، گزرتا ہوا ہر پل
خالی پیٹ اُس مکاں میں
بھلا کیوں شام کو کچھ ملتا !
ملِتی تھی غذا صبح میں
تھا میں بازار کی جس دکاں میں
چھایا تھا اندھیرا ہر سُو
تھا نہ باجرہ ، نہ پانی
دن گزر گیا ایسے ہی
بنا کھائے کھانا،، بن پیے پانی
دوسرے دن بھی ہوا یہی
قُفل دکاں کا کھُلا نہیں
اُٹھا جا رہا تھا ، نہ چلا جا رہا تھا
میں بیٹھا پنجرے میں اک طرف
گھُپ اندھیروں کو بس، تکا جا رہا تھا
پیاس سے حلق سُوکھ چکا تھا
دانے ، دُنکے سے تھا پیٹ خالی
مسلسل اندھیرا تھا اس دکاں میں
تھا قفس ہر طرح کے ، اُجالے سے عاری
پھر اچانک سے ہی ۔ ۔ ۔ بند ہو گئیں تھیں آنکھیں
بے سُدھ تھا میرا جسم سارا
بس باقی تھیں ، تو صرف چند سانسیں
کیا قصور تھا ۔ ۔ ۔ میں معصوم تھا !
بے ضرّر بھی،، با وفا!
نہ جانے یہ کیوں ملی تھی سزا
سامنے بند آنکھوں کے
تھے منظر حَسین یادوں کے
کر کے یاد اُنہی یادوں کو
سر اک طرف ڈھلک گیا تھا
میں پنچھی کھُلی فضاﺅں کا
موت بے بسی کی مر گیا تھا
ہاں ۔۔۔ میں”مر ” گیا تھا !!
*****
شاعرِامن
کاشف شمیم صدیقی
Comments are closed on this story.